مختصر تعارف

 

غلام یزدانی سعدی دلشادپوری کٹیہاری

نام و نسب :

حضرت علامہ مولانا ابوعائشہ غلام یزدانی بن مولاناجعفرصادق( شیخ الادب العربی) بن تجارت حسین بن شہادت اللہ۔

مولد و مسکن:

دلشادپور،تھانہ بلیابیلون،ضلع کٹیہاربہار۔

  خاندانی حالات:

دادا اور پردادا  علاقہ میں اثر  و رسوخ رکھتے تھے، صاحب ثروت اورسنجیدہ شریف لوگوں میں شمارکئے جاتے تھے،جد محترم اپنے حسین  کارناموں کی وجہ سے اپنے وقت میں مہاراج سے مشہور تھے اورآج بھی یہ خاندان اسی نام (مہاراج خاندان)سے ہی مشہور و معروف ہے۔

والدین کریمین:

حضرت مولانا جعفرصادق  نوری صاحب قبلہ نیک،حق گو اور پابند صوم و صلاۃ ہیں ان کو نائب غوث اعظم حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے شرف ارادت حاصل ہے،آپ کی دو شادیاں ہوئیں ،پہلی زوجہ محترمہ بی بی سیدہ ماہ  لقا مرحومہ جو سرزمین دیلالپور، سالماری کٹیہار کی عظیم ہستی اور با اثر شخصیت سید عبدالمالک مرحوم کی شاہزادی ہیں، انتہائی سادہ اورشریعت مطہرہ کی پابندتھیں جن کے بطن سے چارلڑکے،حضرت مولانا غلام یزدانی ،غلام صمدانی ،غلام ربانی وحافظ غلام سبحانی اور ایک لڑکی ،نازیہ توقیراختر(سہاگی ) ہیں۔ دوسری زوجہ انجمن آرا بنت نور محمد جو عمادپورگاؤں سے  ہیں جن کے بطن سے پانچ لڑکے،محمد نورانی ، محمد ابوصالح، محمد احمدرضا، محمد مبارک حسین ومحمدحسن رضا اورایک لڑکی ،نورفاطمہ ہیں۔

جائے پیدائش:

اپنے نانیہال سید عبدالمالک مرحوم دیلالپوری کے گھر   ؁۱۹۸۰ء میں پیداہوئے،بچپن کازیادہ ترحصہ وہیں گزرا۔

ابتدائی تعلیم:

دیلالپور میں سید منشی دلاور حسین مرحوم اورسید مولوی اخترالحسین مرحوم کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،اوراپنے گاؤں میں خلیفۂ حضورمفتی اعظم ہند حضرت علامہ قربان علی صاحب مرحوم وحضرت مولانامجیب الحق صاحب  سےشرف تلمذ حاصل کیا۔

درس نظامی کی ابتدا:

 درس نظامی کی ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے  مشہور و معروف ادارہ ، دارالعلوم مصطفائیہ درگاہ شریف چمنی بازار پورنیہ ،الجامعۃ النظامیہ فیض العلوم ملک پوردالکولہ،کٹیہار،تنظیم المسلمین بائسی پورنیہ  میں حاصل کی۔

 مشہوراساتذہ کرام: حضرت مولانا میرعبدالرب صاحب قبلہ مرحوم، حضرت علامہ رحمت حسین کلیمی نوراللہ مرقدہ ،حضرت مفتی مظفرحسین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولاناغلام یسین صاحب قبلہ ، حضرت علامہ ومولانامفتی تفویض احمدصدر افتا دارالعلوم فیضان مفتی اعظم ہندممبئی،حضرت مولاناابوالحسن نوری۔

اعلی تعلیم:

 جماعت ثالثہ ورابعہ کی تعلیم،۱۹۹۸/۱۹۹۹،ازہرہندالجامعۃ الأشرفیہ  مبارکپور میں حاصل کی۔ مشہوراساتذہ کرام: حضرت علامہ مفتی معراج القادری صاحب  رحمۃ اللہ،حضرت مولاناناظم علی صاحب ، حضرت علامہ مسعود مصباحی صاحب قبلہ۔

جماعت خامسہ  وسادسہ ۲۰۰۰/۲۰۰۱، میں بہار کی راجدھانی پٹنہ کے جامعہ رضویہ مغلپورہ پٹنہ سیٹی   میں حاصل کی۔ان کے  اساتذہ کرام میں  ان جیسی مشہورومعروف شخصیات شامل ہیں : فقیہ النفس مناظر اہل سنت حضرت علامہ ومولانامفتی محمد مطیع الرحمٰن صاحب قبلہ، حضرت علامہ ومولانا رونق احسان برکاتی صاحب قبلہ بانی  ادارہ  گلشن ابرہیم  پٹنہ ، حضرت علامہ ومولانا مفتی راحت احسان برکاتی صاحب قبلہ شیخ الحدیث جامعہ ضیائیہ فیض الرضاددری  سیتامڑھی ، ادیب شہیر ڈاکٹرحضرت علامہ ومولانامفتی محمد امجد رضا امجدی صاحب  سیتامڑھی ۔

جماعت سابعہ وثامنہ کی تعلیم، ۲۰۰۲/۲۰۰۳،میں جامعہ سعدیہ عربیہ کاسراگوڈ کیرالا میں حاصل کی۔

تخصص فی الادب العربي: ۲۰۰۴،میں جامعہ سعدیہ عربیہ میں مکمل کیا۔مشہوراساتذہ کرام:حضرت علامہ مفتی صوفیٔ باکمال نورالعلما عبدالقادر عبداللہ مسلیارنوراللہ مرقدہ ،حضرت علامہ عبدالرحمن اےکے مسلیار مرحوم، رئیس قسم دورۃ التخصص حضرت علامہ عبیداللہ ازہری،رئیس قسم الدبلومہ العربیہ حضرت علامہ عبداللطیف سعدی افضلی، حضرت علامہ و مولانا مفتی محمداشفاق احمد مصباحی صدرشعبۂ حنفی جامعہ سعدیہ عربیہ، حضرت مولاناعبداللہ چیورسعدی۔

                         بیعت:

سن۲۰۰۰میں نبیرۂ اعلی حضرت ،خلیفۂ حضورمفتی اعظم ہند،قاضی القضاۃ فی الھندحضرت علامہ الشاہ مفتی محمداختررضاخان ازہری کے دست مبارک پرشرف بیعت  حاصل کرکے سلسلۂ قادریہ رضویہ میں داخل ہوئے۔

میدان عمل اورسفرتدریس:

تکمیل تعلیم کے بعد دوسال سپاہیان مسجد جھالراپاٹن راجستھان میں امامت اورتبلیغ کافریضہ انجام دیا، پھر وقت سعید آیا اوران کے مادر علمی جامعہ سعدیہ کیرالا میں تدریسی خدمات کے لئے مدعو کیےگئے اور ۲۰۰۷ سے  ۲۰۱۸ تک وہیں تدریسی خدمات انجام دیں۔

زیارت حرمین شریفین:

دوران تدریس  ۲۰۰۹ میں زیارت حرمین شریفین سے بھی مشرف ہوئے

رشتہ ازدواج:

سن ۲۰۰۹میں حرمین طیبین  کے سفرپر روانگی سے قبل  محترمہ سیدہ نذرانہ تاج بنت سید ظفر عالم بن سید مطیع الرحمٰن سے عقد خوانی ہوئی اور۶ذی الحجہ ۱۴۳۱ہجری مطابق۱۳نومبر ۲۰۱۰عیسوی میں رخصتی ہوئی ۔جن کےبطن سےدولڑکے  پیداہوئےلیکن دونوں چندلمحہ کے بعدہی انتقال کرگئے، بڑے لڑکےکانام محمدمجتبی مدنی رکھاگیاجوستلپورمیں مدفون ہوئے(سال۲۰۱۲)اوردوسرے کانام محمد عمر جوجلکی نانیہال میں مدفون ہوئے(سال۲۰۲۲)اور بحمدہ تعالی دولڑکیاں ہیں ،جن میں سے ایک کانام عائشہ مریم اوردرسرے کانام خدیجہ ہے۔

دوسراتدریسی سفر:

۲۰۱۸ کے اواخر میں مولاناشمیم اختر سعدی ومولاناعبدالقادرسعدی ومولاناسرفرازازہری صاحبان کے مخلصانہ دعوت پر حضوراشرف الفقہاحضرت علامہ مفتی مجیب اشرف رضوی ’’قدس سرہ‘‘ کی سرپرستی چلنے والا، عزیزالعلماحضرت علامہ ومولاناغلام مصطفی قادری برکاتی کے قائم کردہ ادارہ دارالعلوم انواررضانوساری گجرات آمدہوئی تادم  تحریر یہیں خدمات پر انجام دے رہے ہیں۔

طریقہ تدریس:

مشکل سے مشکل  کتابوں کو بڑی متانت اور اطمینان بخش طریقہ سے پڑھانے کا ایک خاص تجربہ رکھتےہیں، حدیث واصول حدیث،فقہ اوراصول فقہ، منطق، فلسفہ ،علم ریاضی،اورتفاسیرکی مروج کتابوں کو کئی کئی بارپڑھاچکےہیں،ان کے طریقہ تدریس سے طلبہ کا  اطمینان ہی تدریس کی مہارت پر دلیل ہے،مغلق الفاظ کی مکمل صرفی نحوی اور لغوی وضاحت پھر معنی مراد کی آسان تفھیم کے ساتھ طلبہ کے ذہن میں مشکل سے مشکل ابحاث کو اتارنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں،کتاب پڑھانے سے پہلے مکمل شوق کے ساتھ اس کتاب کوبڑی عمیق نظر سے مطالعہ کرتے ہیں ،اضافۂ علم کے لئے ایک کتاب کے لئے کئی  عربی معاون  شرحیں بھی مطالعہ میں رکھتے ہیں۔

شفقت:ایک بہتر اور مؤثر استاذ کے لئے طلبہ سے شفقت و محبت بھی اہم چیز ہوتی ہے،حضرت مولاناغلام یزدانی سعدی صاحب  بڑے چھوٹے تمام طلبہ سے مشفقانہ مزاج رکھتے ہیں،محبت کے ساتھ گفت و شنید اور مزاج پرسی فرماتے رہتے ہیں ۔مشکل وقت اور طلبہ کے مفاد کے تئیں طلبہ کی مکمل اعانت کرتے اور ایک استاذ کے ساتھ ساتھ والد کا کردار بھی ادا فرماتے ہیں۔

عربی ادب سے خاص شغف:

عربی تکلم اور عربی مضامین دونوں میں اللہ تعالیٰ نے مولانا کو بڑی صلاحیت عطا فرمائی ہے، عربی مضامین کی تعداد تقریباً ٤٠ ہے جن میں بیشتر عربی رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوچکی ہیں ان سب کو یکجا کرنے پر ایک ضخیم کتاب کی شکل  اختیاکر سکتی ہے، عربی تکلم میں جدید انداز و بیان پر اچھی نظر رکھتے ہیں۔چونکہ زمانہ طالب علمی سے ہی عربی ادب پر توجہ دیتے رہے پھر ایک معیاری عربی درسگاہ جامعہ سعدیہ میں تعلیم کے ساتھ 11 سالہ  تدریسی دور بھی گزرا۔

 

تصنیفی خدمات:

ماہر زبان و ادب فی العربیہ حضرت مولانا غلام یزدانی صاحب نے تدریسی امور کے ساتھ تصنیفی امور میں بھی ہُنر آزمائی کی ہے ۔ زیرِ نظر کتاب ’’بیان الاعراب ‘‘حضرت کی تیسری تصنیف ہے ، پہلی تصنیف’’نحو میر مع اجرائے قواعد ،، شرح نحو میر ہے جو منظر عام پر آچکی ہے اور علما نے اس کو کافی سراہا۔ دوسری تصنیف ’’اصطلاحات موبائل کے سہ لسانی نمونے،، نے بھی کافی شہرت کمائی ہے

Shopping Cart